14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 11
منزل عشق قسط 11
صبح وانیا کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو کسی کی گرفت میں پایا۔ایک پل میں گھبرا کر وہ پلٹی تو اسے باہوں میں بھر کر سوئے راگا پر نظر پڑتے ہی ایک چیخ وانیا کے ہونٹوں سے نکلی۔
اسکی گرفت سے نکلتے وہ بیڈ سے اتری اور خوف سے تھر تھر کانپنے لگی۔
"آآآ۔۔۔۔آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"
وانیا نے گھبرا کر پوچھا تو راگا کندھوں تک آتے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اٹھ بیٹھا۔
"بستر پر ناچ رہا تھا اور ناچ کر دیکھاؤں کیا؟ ماڑا یہاں سویا جاتا ہے اور وہی کر رہا تھا جو تمہیں گوارا نہیں ہوا۔۔۔۔"
راگا نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔
"آپ ۔۔۔آپ میرے پاس کیوں سو رہے تھے کہیں اور سو جاتے۔۔۔"
"اب میں پاگل تو نہیں کہ اتنی سردی میں ایک بیوی ہوتے ہوئے میں تنہا سو جاؤں اور قصور سراسر تمہارا ہے افغان جلیبی میں تو شرافت سے فاصلے پر لیٹا تھا تم ہی مجھ سے ایسے لپٹ گئی جیسے۔۔۔۔"
راگا جو شرارت سے کہتا اسے تنگ کر رہا تھا اسے پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا تو اٹھ کر اسکے پاس آیا۔
"کیا ہو گیا؟"
راگا نے اسکا گال تھام کر بہت نرمی سے پوچھا۔
"پلیز مجھے یہاں نہیں رہنا۔۔۔۔میں اور آپ ایک نہیں ہو سکتے۔۔۔۔پلیز مجھے طلاق دے کر یہاں سے جانے۔۔۔۔"
ابھی وانیا کے الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے جب راگا کا اسکے گال پر موجود ہاتھ گردن کے پیچھے گیا اور اس نے سختی سے اسے اپنے بہت قریب کیا اتنا کے بولتے ہوئے بھی راگا کے ہونٹ اسکے ہونٹوں کو چھو رہے تھے۔
"یہ لفظ کبھی غلطی سے بھی تمہاری زبان پر نہیں آنا چاہیے۔۔۔۔تم جاننا نہیں چاہو گی کہ راگا کو دہشت کیوں کہا جاتا ہے۔۔۔۔"
راگا کی آنکھوں میں خون اترتا دیکھ وانیا کانپ کر رہ گئی۔
"مم۔۔۔۔میں نہیں مانتی اس رشتے کو۔۔۔۔"
ہمت کر کے وانیا نے روتے ہوئے کہا۔
"مانو یا نہ مانو سچ یہی ہے وانیا عماد بنگش کہ تم میری ملکیت ہو۔تم کوئی بھی راستہ اپنا لو تمہاری ہر منزل مجھ پر ہی ختم ہو گی کیونکہ ایک دوسرے کا ہونا ہی ہماری منزل عشق ہے۔۔۔"
اتنا کہہ کر راگا نے اسے جھٹکے سے چھوڑا اور پاس پڑے لکڑی کے صندوق سے اپنے کپڑے نکالنے لگا۔دروازہ کھٹکنے کی آواز پر راگا نے دروازہ کھولا تو سامنے ناشتہ لیے کھڑی مرجان کو دیکھا۔
"لالہ ناشتہ۔۔۔"
مرجان نے ڈرتے ڈرتے کہا تو راگا نے بیڈ کی جانب اشارہ کیا۔
"کل سے تم ناشتہ نہیں لاؤ گی مرجان اب میرا بیوی ہے وہ خود بنایا کرے اور ساتھ ہی ساتھ اسے ہر کام سمجھا دینا اب کمرے میں بند رہنے کی بجائے اسے میرا ہر کام سنبھالنا ہے۔"
راگا کی بات سن کر وانیا نے حیرت سے اس شخص کو دیکھا۔
"آپ مجھے باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔۔۔؟"
"بالکل۔۔۔"
راگا نے عام سے انداز میں کہا۔
"آپکو ڈر نہیں لگتا کہ میں بھاگ جاؤں گی؟"
وانیا کی معصومیت پر راگا قہقہ لگا کر ہنس دیا اور مرجان کا دل کیا کہ اپنا ماتھا پیٹ لے۔
"کہا نا کہ اب تمہارا ہر راستہ صرف مجھ تک آتا ہے تو مجھ سے دور جاؤ گی کہاں۔۔۔؟"
راگا نے ایک آنکھ دبا کر کہا اور پھر اپنے کپڑے لے کر کمرے سے نکل گیا۔وانیا نے نگاہیں اٹھا کر مرجان کو دیکھا جو اسکے سامنے ناشتہ رکھ رہی تھی پھر اسکی نظر مرجان کے گال پر موجود انگلیوں کے نشان پر پڑی تو اسکی پلکیں پھر سے بھیگ گئیں۔
"آئی ایم سوری مرجان مجھے معاف کر دو میری وجہ سے تمہارے شوہر نے تمہیں مارا۔۔۔"
وانیا کی بات پر مرجان نے اپنا گال چھوا تو اسکی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"نہیں وانی یہ تمہارا غلطی نہیں آج یا کل تو یہ ہونا ہی تھا لیکن میں نے نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنی جلدی ہو گا۔۔۔۔وہ بہت برے سہی وانی لیکن انہوں نے کبھی مجھے مارا نہیں لیکن رات یہ بھی کمی پورا کر دیا انہوں نے۔۔۔"
مرجان نے نم آنکھوں سے کہا تو وانیا خود میں ہی سمٹ کر مزید رونے لگی۔
"مجھے یہاں نہیں رہنا مرجان۔۔۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے میں کیا کروں ۔۔۔۔"
وانیا کو پھوٹ پھوٹ کر روتا دیکھ مرجان نے اسکو اپنے سینے سے لگا لیا۔
"بس اللہ پر بھروسہ رکھو وانی وہ جلد ہی تمہارے لیے وصیلہ پیدا کرے گا۔۔۔"
مرجان نے اسکو دلاسہ دینے کی کوشش کی لیکن وانیا کو دلاسہ دینا آسان نہ تھا اسکی زندگی مکمل طور پر بدل چکی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
معراج آج پھر سے خادم شفیق کے گھر آیا تھا۔اسے دیکھتے ہی ملازم اسے سیدھا ایمان کے کمرے میں لے گیا۔پہلے تو معراج ہچکچا کر باہر کھڑا رہا پھر گہرا سانس لے کر کمرے میں داخل ہوا۔
ایمان آج گاڑے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنے کھلے بالوں کے ساتھ میز کے پاس بیٹھی کچھ کر رہی تھی۔
"ہہ۔۔۔ہائے۔۔۔"
معراج نے آہستہ سے کہا کہ کہیں آج پھر سے وہ اس سے ڈر نہ جائے لیکن ایمان نے تو اس کی طرف دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔
معراج نے میز پر دیکھا جہاں وہ سکیچ بنا رہی تھی اور بہت سے سکیچ بنے اسکے پاس پڑے تھے۔
"ووو ۔۔۔۔واو یہ بہت اچھے ہیں تتت۔۔۔۔تم نے بنائے ہیں سب؟"
ایمان نے پھر سے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنا کام کرنے لگی رہی۔اچانک معراج کی نظر ایک سکیچ پر پڑی جس میں ایک چھوٹی سی لڑکی ایک بھیڑیے کی گرفت میں تھی اور وہ بھیڑیا اس کے گرد لپٹی چادر نوچ رہا تھا۔
وہ سکیچ معراج نے بہت حیرت سے دیکھا کیونکہ وہ دیکھنے میں ہی بہت عبرتناک لگ رہا تھا۔
"یہ۔۔۔۔ککک۔۔۔۔کون ہے ایمان؟"
معراج نے بھیڑیے کی جانب اشارہ کر کے پوچھا۔ایمان نے اسکیچ بنانا چھوڑ کر ایک نظر اس تصویر کو دیکھا۔
"مونسٹر۔۔۔۔"
اس بات پر معراج نے سہم کر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔
"ااااا۔۔۔۔اور یہ لڑکی کون ہے؟"
"میں۔۔۔۔"
اسکے عام سے جواب پر معراج کا سانس حلق میں اٹکا تھا۔اگر اس تصویر کے مفہوم کو سمجھتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی ایمان کو ہراساں کر رہا تھا کوئی ایسا جسے ایمان جانور سمجھتی تھی۔
"کک۔۔۔۔کون ہے یہ مونسٹر؟"
اس سوال پر ایمان نے اپنی آنکھیں اٹھا کر معراج کو دیکھا جس کی سبز آنکھوں میں خوف تھا۔وہ آہستہ سے معراج کے کان کے قریب ہوئی۔
"تم یہاں سے چلے جاؤ مت آیا کرو یہاں تمہیں نہیں پتہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔۔۔"
"کک۔۔۔۔کیا ہو گا؟"
معراج نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
"وہ مار دے گا تمہیں۔۔۔۔وہ سب کو مار دیتا ہے جو ایمان کا دوست بنتا ہے اس کو مار دیتا ہے۔۔۔۔تمہیں بھی مار دے گا۔۔۔"
ایمان سرگوشی کر رہی تھی اور معراج کی دھڑکنیں بہت بڑھ چکی تھیں۔
"ککک۔۔۔۔کون مار دے گا؟"
پہلے تو ایمان خاموش رہی پھر آہستہ سے بولی۔
"مونسٹر۔۔۔"
معراج نے اپنا چہرہ موڑ کر اسے دیکھا جو بڑی آنکھیں کیے اس سے دور ہو رہی تھی۔
"اا۔۔۔ایمان تم ڈرو مت۔۔۔"
معراج نے اسے دلاسا دینے کے لیے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تھا لیکن معراج کے ایسا کرتے ہی ایمان نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس سے دور ہوئی تھی۔
"ڈونٹ ٹچ می۔۔۔۔ مونسٹر ہو تم بھی مونسٹر ہو۔۔۔۔سب مونسٹر ہیں۔۔۔۔"
ایمان چیخیں مار کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی ساتھ ہی ساتھ جو کچھ بھی ہاتھ میں آتا اسے اٹھا کر معراج کو مارنے لگی۔معراج اس قدر گھبرا گیا تھا کہ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
"ایمان کیا کر رہی ہو تم سٹاپ۔۔۔۔"
خادم کی بات پر ایمان کا ہوا میں اٹھا ہاتھ وہیں رک گیا جس میں ایک گلدان تھا اور معراج اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے بس اپنے ہاتھ چہرے کے سامنے کیے ہوئے تھا۔
"معراج بیٹا آپ ٹھیک ہو نا؟"
خادم نے نرمی سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا جبکہ ایمان اب بس خوف سے بھری آنکھوں سے پیچھے کھڑے عرفان کو دیکھ رہی تھی۔
"جج۔۔۔جی انکل ٹھیک ہوں۔۔۔"
خادم نے ایمان کو گھورا جو پر خوف نگاہیں مسلسل عرفان پر جمائے ہوئے تھی۔
"ایمان یہ کیا حرکت تھی میں معراج کو آپ کا دوست بنا کر لایا ہوں تا کہ آپ کی تنہائی دور ہو اور آپ ہو کے۔۔۔۔"
خادم اپنی بیٹی کو ڈانٹنے لگا لیکن وہ سن کہاں رہی تھی بس بت بنے کھڑی تھی۔
"چلو معراج آپ میرے ساتھ اور عرفان تم زرا اس پاگل لڑکی کو سمجھاؤ کہ اپنا رویہ درست رکھے سب کے ساتھ۔۔۔۔"
خادم نے عرفان کی جانب مڑ کر کہا جو خباثت سے مسکرا دیا۔
"شوق سے سر۔۔۔"
اتنا کہہ کر عرفان ایمان کی جانب بڑھا جو بس نم ہوتی نگاہوں سے اسے قریب آتا دیکھ رہی تھی۔اسکی آنکھوں میں انتہا کی بے بسی تھی۔
خادم معراج کو اپنے ساتھ کمرے سے باہر لے آیا۔
"انکل کک۔۔۔کیا ہو گیا تھا ایمان کو وہ ااا۔۔۔۔اس طرح سے کیوں ۔۔۔"
اس سوال پر خادم نے گہرا سانس لیا۔
"بس بیٹا یہ سمجھو کہ یہ میری بری قسمت ہے کہ اپنی اکلوتی اولاد کو اس حال میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔"
خادم اپنا سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھا تھا۔
"ایمان اپنی ماں کے بہت زیادہ قریب تھی اور بس اس کی موت کے بعد سے اس صدمے سے نکل ہی نہیں پا رہی کتنا ہی علاج کروایا میں نے اس کا لیکن اپنی ماں کو کھونے کا غم اسے اندر ہی اندر ختم کر رہا ہے ۔"
خادم پریشانی سے کہہ رہا تھا اور معراج بس اسکی بات سن رہا تھا۔
"کیا ہوا تھا آنٹی کو؟"
"ہارٹ اٹیک بیٹا بس پانچ سال کی تھی تب میری ایمان۔اسی امید سے میں تمہیں آیا تھا یہاں معراج کہ تم دونوں کا غم ایک جیسا ہے دونوں نے بچپن میں ہی اپنے قریبی کھو دیے تو شاید تم دونوں ایک دوسرے کے درد کے ساتھی بن جاؤ لیکن میری ایمان۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر خادم نے افسوس سے اپنا سر جھکا دیا۔
"آآآ۔۔۔آپ فکر مت کریں انکل مم۔۔میں ایمان کے ساتھ ہوں۔۔۔۔کککوشش کروں گا کہ آئندہ وہ ممم۔۔۔مجھ سے نہ ڈرے۔۔۔"
معراج کی بات پر خادم نے مسکرا کر اس کا ہاتھ تھاما۔
"بہت شکریہ بیٹا میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔کاش تمہارے ساتھ وہ نہ ہوا ہوتا جو کہ ہوا۔۔۔خیر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے مجھے امید ہے کہ اب تم دونوں ایک دوسرے کو سمجھو گے اور ایک دوسرے کا سہارا بنو گے۔۔۔"
"ضرور انکل۔۔۔"
معراج نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا تو خادم بھی مسکرا دیا اور پھر اپنے کام کی غرض سے وہاں سے چلا گیا لیکن معراج بہت دیر تک وہاں کھڑا ایمان کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
انس اور ہانیہ حیدرآباد پہنچ چکے تھے اور اب اس ہوٹل کے باہر کھڑے تھے جہاں انہیں وہ شخص ملنا تھا جو انہیں آگے کا راستہ دکھاتا۔
"تم باہر ہی انتظار کرو ہانیہ میں اس سے پوچھ تاچھ کر کے آتا ہوں۔۔۔"
"ہرگز نہیں میں بھی آپ کے ساتھ چل رہی ہوں بات ختم۔۔۔"
ہانیہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"ہانیہ جگہ شریف لوگوں کے جانے کے قابل نہیں اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم باہر رکو۔۔۔"
"انس میں۔۔۔۔"
"پلیز ہانیہ ایک بار میری بات مان لو۔۔۔"
انس کے بات پر ہانیہ خاموشی سے اپنے سینے پر ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئی جبکہ انس اس کی بھینچی ہوئی مٹھیوں کو دیکھ سکتا تھا۔
وہ ٹیکسی سے نکل کر اس ہوٹل میں آیا جو شروعات سے تو ہوٹل تھا لیکن تیسرے فلور پر ایک کلب تھا جس میں عیاش اور بہت سے برے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔توقع کے عین مطابق انس کو اپنا دوست بشر وہیں ملا تھا۔
"ارے کیا بات ہے آج ہمارے غریب خانے میں عظیم ہستی آئی ہے۔۔۔۔"
بشر کی بات پر انس مسکرا دیا اور اس کے اشارہ کرنے پر اس کے ساتھ ایک میز کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔
"ضروری کام تھا بشر عشق سے بارے میں معلومات چاہیے تھی تم سے۔۔۔"
"حکم کر یار نا بھی جانتا ہوا نا اسے تو کہیں سے ڈھونڈ لوں گا تیرے لیے۔"
"راگا۔۔۔"
اس نام پر بشر کی آنکھیں حیرت سے کھل چکی تھیں۔
"کہیں فوج کی طرح IB بھی چھوڑ کر نہیں بیٹھ گیا؟"
بشر کے سوال پر انس نے اسے گھورا۔
"جو پوچھا ہے اس کا جواب دے۔"
انس کے دانت پیس کر کہنے پر بشر لگا کر ہنس دیا
"آئی بی کے سب انسپکٹر انس راجپوت شائید آپ بھول رہے ہیں کہ آپکا مشن سکندر 'دا گرین آئی مونسٹر' کو پکڑنا ہے آپ یہ راگا کے پیچھے کہاں سے پڑھ گئے وہ فوج کے حصے میں آتا ہے۔۔۔۔"
"جانتا ہوں کہ میں کون ہوں اور میرا کیا فرض ہے تجھے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں سکندر آج یا کل میری گرفت میں ہوگا تم اس کی فکر مت کرو مجھے راگا کا پتہ بتاؤ۔"
اس کی بات پر بشر کچھ دیر سوچ میں ڈوب گیا۔
"راگا کون ہے یہ تو اس کے پکڑے جانے کے بعد سے ہر کوئی جانتا ہے اس کا چہرہ بھی منظر عام پر آ چکا ہے لیکن وہ کہاں رہتا ہے یہ صرف اس کے قریبی ساتھی جانتے ہیں۔میں تو تمہیں اس حوالے سے کوئی ہنٹ بھی نہیں دے سکتا البتہ ایسے شخص کا ضرور بتا سکتا ہوں جو شاید اس کا ٹھکانہ جانتا ہو۔"
"کون ہے وہ؟"
انس نے بے تابی سے پوچھا اس کے لئے ایک اشارہ ہی کافی تھا۔
"وہ سامنے بیٹھا ہے اس وقت جاؤ اور پوچھ لو لیکن بہت الٹی کھوپڑی کا بندہ ہے۔"
انس نے اس چالیس سالہ آدمی کو دیکھا جو ایک میز کے پاس بیٹھا خود جو شراب میں غرق کر رہا تھا۔
"ویسے وہ لڑکی جو پندرہ منٹ سے ہمیں وہاں کھڑی ہو کر دیکھ رہی ہے،تمہارے ساتھ ہے کیا؟"
بشر کی بات پر انس نے فورا پلٹ کر ہانیہ کو دیکھا جو ایک ہڈی پہنے کونے میں کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
"کبھی نہیں سنتی یہ لڑکی۔۔۔۔"
ان فور اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آیا۔
"بولا تھا نا کہ اندر مت آنا تو کیوں آئی؟"
"کچھ پتہ چلا؟"
ہانیہ نے اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنا سوال پوچھا۔
"ہوں وہ سامنے بیٹھا شخص شائید کچھ بتا دے ہمیں اس کے بارے میں۔۔۔"
"تو جائیں جا کر پوچھیں اس سے میرے پاس کھڑے ہو کر وقت ضائع کر رہے ہیں ۔"
ان سن یہ گھورا جیسے کہ اسے کہنا چاہ رہا ہو کہ تمہیں تو بعد میں دیکھوں گا۔پھر اس شخص کے پاس آیا اور ساتھ موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔
"سنو ۔۔۔۔"
"ہوں۔۔۔"
آدمی نے شراب کا گلاس ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا۔
"راگا کے بارے میں جانتے ہو؟"
اس سوال پر اس شخص کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکان آئی۔
"جانتا بھی تو تمہیں نہیں بتاتا۔۔۔"
"یہ دیکھنے کے بعد بھی نہیں؟"
انس نے اپنا سب انسپکٹر کا کارڈ اسکے سامنے رکھا۔
"ہاہاہا بہت دیکھے تو جیسے پولیس والے جا نہیں بتاتا تجھے کچھ بھی کر لے جو کر سکتا ہے۔۔۔"
اس کی بہادری پر انس نے اسے ابرو اچکا کر دیکھا۔
"پھر میں یہ کہوں گا کہ قیمت بولو اپنی۔۔۔۔"
"کوئی قیمت نہیں مجھے کچھ بھی نہیں بتانا پھر چاہے کچھ بھی کر لے۔۔۔"
اس کا دل کیا کہ اس کی ہڈی پسلی توڑ کر اس سے پوری بات معلوم کروا لے لیکن اتنے لوگوں کے درمیان ہوں تماشا نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے اس نے سوچا کہ اس شخص کے یہاں سے نکلنے کے بعد ہی دیکھے گا۔
"کیا کہا اس نے؟"
انس ہانیہ کے پاس آیا تو ہانیہ نے بے چینی سے سوال کیا۔
"کچھ نہیں بتایا ۔۔۔"
"ایسے کیسے کچھ نہیں بتایا؟"
اس سے پہلے کہ انس اسے روکتا ہانیہ اپنا ہاتھ چھڑا کر اس شخص کے پاس آ کر کھڑی ہوئی۔
"راگا کہاں ملے گا؟"
ہانیہ کا لہجہ دھمکی آویز تھا۔
"ہائے جانم پیار کر کے پوچھو تو کچھ بھی بتا دوں راگا کیا چیز ہے۔۔۔۔"
اس آدمی نے ہانیہ کا نازک ہاتھ تھام کر کہا تو انس کا دل کیا کہ اسکا ہاتھ توڑ دے اور ایسا کرنے کے لیے وہ آگے بڑھا لیکن تبھی ہانیہ نے اس کی کلائی پکڑ کر اس کا ہاتھ پیچھے مروڑا اور جھٹکے سے اس کا سر بہت زور سے میز پر مارا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے شیشے کی بوتل اٹھا کر توڑی اور اس شخص کی گردن کے پاس رکھ دی۔وہ جو پہلے ہی شراب کے نشے سے کمزور تھا اپنی گردن پر چبھن محسوس کرکے گڑبڑا گیا۔
"جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔"
ہانیہ کے غرانے پر وہ مزید ڈر گیا۔
"گگ۔۔۔۔گلگت بلتستان وہیں کہیں رہتا ہے وہ لیکن وہاں کہاں یہ اس کے ساتھیوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔"
اس شخص نے گھبرا کر کہا تو ہانیہ نے وہ شیشہ اسکی گردن کے مزید قریب کیا۔
"قققق۔۔۔۔قسم کھاتا ہوں اسکے علاؤہ کچھ نہیں جانتا۔۔۔"
ہانیہ نے اس شخص کو جھٹکے سے چھوڑا اور بوتل زمین پر پھینک کر انس کے پاس آئی جو وہاں موجود ہر شخص کی طرح اپنی آنکھیں بڑی کیے اس لڑکی کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
"اگلی بار ایسے پوچھنا۔۔۔۔"
ہانیہ اتنا کہہ کر وہاں سے چلی گئی جبکہ انس ابھی بھی منہ کھولے کھڑا تھا۔
"تو یہ ہے راگا کو ڈھونڈنے کی وجہ، واہ عاشق غالب نے صحیح کہا تھا۔
عشق نے نکما کر دیا
ورنہ آدمی میں بھی کام کا تھا۔"
بشر نے انس کے پاس آ کر ہنستے ہوئے کہا تو انس بھی مسکرا دیا۔
"پٹاخہ گڈی۔۔۔"
انس نے ہنستے ہوئے کہا اور اس کے پیچھے چل دیا۔
❤️❤️❤️❤️
"سر خادم شفیق صاحب ملنے آئے ہیں آپ سے۔۔۔۔"
سالار جو آفس میں بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا ملازم کے بات پر حیران ہوا۔
"بھیجو انہیں اندر۔۔۔۔"
ملازم اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی خادم شفیق کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔
"اسلام و علیکم۔۔۔"
"و علیکم السلام۔۔۔بیٹھیے۔۔۔۔"
سالار نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے سامنے موجود کرسی کی جانب اشارہ کیا۔
"چند دن پہلے ہی مجھے خبر ملی کی سالار بیٹا یہاں آیا ہوا ہے اور عام عوام پارٹی کا سربراہ بھی بن چکا ہے تو سوچا کہ تم تو مجھ سے ملنے آئے نہیں تو کیوں نہ میں خود ہی آ جاؤں؟"
خادم نے ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے کہا۔
"اچھا کیا آپ نے انکل بتائے کیسے آنا ہوا آپ کا کوئی کام تھا کیا مجھ سے؟"
سالار نے انٹرکام پکڑ کر ملازم کو کچھ حکم سنائے۔
"ارے نہیں بیٹا کام کیا ہوگا بس سوچا کہ میرے بہت عزیز دوست اور ہماری پارٹی کے پرانے سربراہ عثمان ملک کا بیٹا ہمارے مقابل آیا ہے تو کیوں نہ اس سے مل آؤں۔"
"آپ کے تکلف کا شکریہ۔"
سالار نے مسکرا کر کہا تبھی ملازم چائے لے کر کمرے میں داخل ہوا تھا۔
"ویسے تم نے اتنی چھوٹی سی پارٹی کیوں جوائن کی جس کا کوئی مستقبل ہی نہیں میری پارٹی میں آ جاتے تو آنے والے الیکشن میں ایم پی اے ضرور بنتے تم۔۔۔۔"
خادم کی بات پر سالار بس ہلکا سا مسکرا دیا۔
"ایک ملک آپ کا ساتھی تھا انکل لیکن اس کے زوال کے بعد بہت جلدی آپ نے اس کی سیٹ سنبھالی۔۔۔۔اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نا دوسرا ملک آپ کے مقابل آ کر دیکھے۔۔۔۔"
سالار کی نظروں میں نا جانے ایسا کیا تھا کہ خادم کی نظریں خود بخود جھک گئی تھیں۔
"اس وقت پارٹی بکھر گئی تھی بیٹا مظبوط سہارا ملنا بہت ضروری تھا مجھے ورنہ عثمان سر کی جگہ لینے کے بارے میں میں سوچ بھی کیسے سکتا تھا۔"
سالار اس وضاحت پر بس مسکرا دیا۔
"ارے آپ فکر مت کریں انکل میں تو بس جنرل سی بات کر رہا تھا رہی بابا کی بات تو انشاءاللہ بہت جلد ان پر لگا ہر الزام ہٹا کر انہیں اس ملک میں واپس لے آؤں گا پھر عثمان ملک اسی مقام پر پہنچے گا جہاں اسے ہونا چاہیے۔۔۔۔"
خادم نے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا۔
"انشاءاللہ مجھے بھی یقین ہے بیٹا کہ تم عثمان سر کو بے گناہ ثابت کر لو گے۔۔۔۔"
کبھی سالار کی نظر گھڑی پر پڑی تو وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔
"چلتا ہوں انکل ضروری کام ہے پھر ملاقات ہو گی۔۔۔"
سالار اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل آیا جبکہ خادم وہیں بیٹھا رہا تھا۔آفس سے نکل کر سالار سیدھا فٹ پاتھ پر کھڑی گاڑی نیا بیٹھا جس میں جنت پہلے سے موجود تھی۔
"اففف کب سے ویٹ کر رہے ہیں میں اور جمال بھائی آپ کا اب جلدی سے گھر چلیں مجھے سونو کو بہت سا پیار کرنا ہے۔"
"سونو؟نام بھی رکھ لیا تم نے اس کتے کا؟"
سالار نے ہلکا سا ہنستے ہوئے پوچھا۔
"جی کل رات ہی رکھ لیا تھا اور بس اب جلدی سے چلیں ورنہ ناراض ہو جاؤں گی آپ سے۔۔۔"
جنت نے منہ پھلا کر کہا۔اسکا پھولا منہ دیکھ کر سالار نے فورا جمال کو چلنے کا اشارہ کیا۔
"ویسے میری پرنسپل مجھے آپ کے ساتھ بھیج کر دیا؟ کل بھی بھیج دیا تھا اور آج بھی جب جمال بھائی نے آپ کا نام لیا تو پھر بھیج دیا۔۔۔۔"
جنت حیرت سے پوچھ رہی تھی۔
"یہ راز ہے بے بی گرل مستقبل میں بتاؤں گا جب تم بہت سے دوسرے رازوں کو جھیلنے کے قابل ہو جاؤ گی۔۔۔۔"
سالار نے مسکرا کر کہا اور جنت جو اسکے خوبرو چہرے میں کھو چکی تھی گھبرا کر باہر دیکھنے لگی۔
❤️❤️❤️❤️
"کیسے ہوا یہ بتاؤ مجھے؟وہ جنرل کی جان لینے گیا تھا اے کے تو پکڑا کیسے گیا وہ؟"
سلطان غصے سے سامنے کھڑے اے کے پر چلا رہا تھا۔
"نہیں معلوم سر یہ جنرل ضرورت سے زیادہ ہی چالاک نکلا۔"
اے کے نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔
"شکر کرو تم خود وہاں نہیں گئے بلکہ اپنے آدمی کو بھیج دیا ورنہ آج ہمارا راز اس پوری دنیا کے سامنے کھل جاتا اے کے۔۔۔۔"
سلطان بکی بات پر اے کے نے ہامی بھرتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
"اور سوچو آگے کیا کرنا ہے راگا کو کیا جواب دیں گے ہم۔۔۔۔اپنا کام ادھورا دیکھ کر وہ ہمارا کام بھی نہیں کرے گا۔"
اے کے بھی اس بات کو سوچ کر پریشان ہوا۔
"فکر مت کریں سلطان سر میں راگا سے خود جا کر بات کروں گا اور اسے بڑے سے بڑا لالچ دوں گا مان جائے گا وہ۔۔۔۔"
سلطان نے گہرا سانس لیتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
"ہاں اے کے کچھ کرو کیونکہ ستارہ پارٹی کے سربراہ کی بدنامی ہی خادم شفیق کی جیت ہے اور کچھ بھی ہو جائے اس بار جیت خادم شفیق کے مقدر میں آئے گی وہی بنے گا اس ملک کا وزیر اعظم۔۔۔۔"
اے کے نے ہاں میں سر ہلایا۔
"ایسا ہی ہو گا سر خادم شفیق کی جیت کے لیے کچھ بھی کروں گا آخر آج میں جو کچھ بھی ہوں اسی کی وجہ سے ہوں اسی کے لیے ہوں۔۔۔۔۔"
اے کے کی بات پر سلطان بھی مسکرا دیا اور اطمینان سے صوفے پر بیٹھ کر پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے اپنی آنکھیں موند گیا۔
"ہاں اے کے خادم کی جیت ہی سلطان کی جیت ہے۔۔۔"